امام اور مقتدی کے دارمیاں بغض کا حکم
سوال:- مفتی صاحب اگر امام کے لیے مقتدی کے دل میں بغض ہو یا مقتدی کے لیے امام کے دل میں بغض ہو تو اس صورت میں نماز ہو جائے گی؟ وضاحت فرمائیں
جواب:- دونوں صورتوں میں بہرحال نماز ادا ہو جائے گی البتہ کسی مسلمان کے لیے دل میں بغض رکھنا درست نہیں اگر یہ بغض دینی معاملے میں کوتاہی فسق و فجور کی وجہ سے ہے تو اس کا اعتبار ہوگا اور اس امام کی امامت مکروہ ہوگی اور اگر دنیاوی کسی غرض کی بنیاد پر بغض ہو تو یہ درست نہیں اور سخت گناہ کا کام ہے
حوالہ جات:- شامی میں ہے: ""(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». وفي البحر الرائق : ""و من السنۃ حدیث(غلو خلف کل بر و فاجر)فی صحیح البخاری أن ابن عمر کان یصلی خلف الحجاج و کفی بہ فاسقا کما قالہ الشافعی"" جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 354 و فی العالمگیری: قال المرغینانی: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ھوی و بدعۃ و لا تجوز خلف الرافضی ۔۔۔۔و حاصلہ ان کان ھوی لا یکفر صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراھۃ والا فلا و ھو الصحیح ھکذا فی البدائع۔ عالمگیری جلد نمبر 1، صفحہ 93۔۔