خولہ اور عدت کے احکام
سوال:- ایک عورت کا شوہر پانچ ماہ سے اس کے پاس نہیں آیا تو کیا وہ عورت خلع لے کر بغیر عدت کے دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟
جواب:- صورت مسؤلہ میں خلع کے بعد خلع کے وقت سے لے کر تین ماہواریاں (اگر حمل نہ ہو) اور تین ماہ (اگرایام نہ اتے ہوں) اور حمل ہونے کی صورت میں بچہ پیدا ہونے تک عدت گزارنا ضروری ہے زیادہ عرصہ میاں بیوی کے الگ رہنے سے عدت کے حکم میں فرق نہیں آئے گا اگر عدالتی خلع ہو تو لازمی ہے کہ وہ شرعا بھی درست ہو۔
حوالہ جات:- قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "" وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ.""(سورۃ البقرۃ: 228) "" وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا .""(سورۃ الطلاق: 4) "" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَاۚ-فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا.""(سورۃ الأحزاب:49) فتاویٰ ہندیہ میں ہے: إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية""............ ""وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان. وسواء كانت المرأة حرة أو مملوكة قنة أو مدبرة أو مكاتبة أو أم ولد أو مستسعاة مسلمة أو كتابية كذا في البدائع"". (كتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر في العدة ، 526،528/1)"