مالک اور مزدور کے دارمیاں حکومت اور بہامی معاہدے کا حکم
سوال:- ایک مالک اور مزدور کے درمیان سرکاری طور پر ایک معاہدہ طے ہوتا ہے لیکن یہ معاہدہ صرف کاغذات کے حد تک محدود ہوتاہے ان کا آپس میں ایک آور معاہدہ ہوتا ہے اور دونوں آپس میں یہ طے کرتا ہیں کے ہم اس معاہدہ کے پابند ہوں گے کیونکہ سرکاری معاہدے میں مالک کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے لیکن سرکار کی جانب سے اس طرح کا معاہدہ کرنا لازم ہے اب کئی سالوں کے بعد جب مزدور گھر جاتا ہے تو کورٹ میں درخواست دائر کر دیتا ہے کہ میرا مالک مجھے اپنا حق دے یعنی اس معاہدے کے حساب سے جو ہم نے حکومت کے طریقہ کار کے مطابق کیا تھا جبکہ مالک اور مزدور کا آپس کے معاہدے کے مطابق مالک نے مزدور کا حق پورا پورا ادا کیا ہے اب مزدور کہتا مالک نے میرا حق ادا نہیں کیا ہے ، مالک کہتا ہے میں نے اس کا حق پورا پورا ادا کیا ہے حکومت اس بات پر مالک سے قسم لیتا ہے تو کیا مالک کے لیے اس بات پر قسم لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:- صورۃ مسؤلہ میں اگر مالک اور مزدور کے درمیان باہمی رضامندی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے معاہدہ ہوا تھا اور مزدورحکومتی معاہدےکے مطابق حق سے دستبردارہوگیا تھا اور مالک نے آپس کے باہمی معاہدےکےمطابق مزدور کا حق ادا کر دیا ہے تو اس صورت میں مزدور کا اپنے حق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے اور اگر قاضی مالک سے مطالبہ کرتا ہے قسم اٹھانے کا تو مالک آپس کے باہمی معاہدے کی نیت کر کے قسم اٹھا سکتا ہے اس صورت میں وہ حانث نہیں ہوگا
حوالہ جات:- لقوله تعالى:
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ
الأشباه والنظائر میں ہے:
اليمين على نية المستحلف إن كان مظلوما وإن كان الحالف مظلوما فعلى نیتہ۔
قبیل القاعدہ الیقین لا یزول بالشک ص:57
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ذُكِرَ عَنْ إبْرَاهِيمَ النَّخَعِيّ أَنَّهُ قَالَ: الْيَمِينُ عَلَى نِيَّةِ الْحَالِفِ إذَا كَانَ مَظْلُومًا وَإِنْ كَانَ ظَالِمًا فَعَلَى نِيَّةِ الْمُسْتَحْلِفُ وَبِهِ أَخَذَ أَصْحَابُنَا مِثَالُ الْأَوَّلِ إذَا أُكْرِهَ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ عَيْنٍ فِي يَدِهِ فَحَلَفَ الْمُكْرَهُ بِاَللَّهِ أَنَّهُ دَفَعَ هَذَا الشَّيْءَ إلَى فُلَانٍ يَعْنِي بِهِ بَائِعَهُ حَتَّى يَقَعَ عِنْدَ الْمُكْرَهِ أَنَّ مَا فِي يَدِهِ مِلْكُ غَيْرِهِ فَلَا يُكْرِهْهُ عَلَى بَيْعِهِ يَكُونُ كَمَا نَوَى وَلَا يَكُونُ مَا حَلَفَ يَمِينَ غَمُوسٍ لَا حَقِيقَةً وَلَا مَعْنًى وَمِثَالُ الثَّانِي إذَا ادَّعَى عَيْنًا فِي يَدَيْ رَجُلٍ أَنِّي اشْتَرَيْت مِنْك هَذَا الْعَيْنَ بِكَذَا وَأَنْكَرَ الَّذِي فِي يَدَيْهِ الشِّرَاءُ وَأَرَادَ الْمُدَّعِي أَنْ يُحَلِّفَ الْمُدَّعَى عَلَيْهِ بِاَللَّهِ مَا وَجَبَ عَلَيْك تَسْلِيمُ هَذَا الْعَيْنِ إلَى هَذَا الْمُدَّعِي فَحَلَفَ الْمُدَّعَى عَلَيْهِ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ وَيَعْنِي التَّسْلِيمَ فِي هَذَا الْمُدَّعَى بِالْهِبَةِ وَالصَّدَقَةِ لَا بِالْبَيْعِ فَهَذَا وَإِنْ كَانَ صَادِقًا فِيمَا حَلَفَ وَلَمْ يَكُنْ مَا حَلَفَ يَمِينَ غَمُوسٍ حَقِيقَةً؛ لِأَنَّهُ نَوَى مَا يَحْتَمِلُهُ لَفْظُهُ فَهُوَ يَمِينُ غَمُوسٍ مَعْنًى؛ لِأَنَّهُ قَطَعَ بِهَذِهِ الْيَمِينِ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ فَلَا تُعْتَبَرُ نِيَّتُهُ.
--------
ص59 - كتاب الفتاوى العالمكيرية الفتاوى الهندية - فصل في تحليف الظلمة وفيما نوى الحالف غير ما ينوي المستحلف"