متفرق سوالات موذی جانوروں کا قتل
آوارہ کتے کو مارنا جائز ہے یا نہیں۔
سوال:- گلی محلے یا یا قرب و جوار میں آوارہ کتوں کو مار دینا جائز ہے یا نہیں بالخصوص ایسے کتوں کو جو اکثر گلی میں آتے ہوں اور انسانی جانوں کیلئے خطرہ محسوس ہوتے ہوں؟
جواب:- حدیث شریف میں کچھ موذی جانوروں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان میں سے ایک کتا بھی ہے۔ حدیث: ""نافع سے روایت ہے کہ (حضرت) عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہما) فرماتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: 'پانچ (موذی) جانور ایسے ہیں کہ انہیں مارنے پر مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں: کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔'"" کتے کو مارنے کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب وہ موذی (تکلیف دہ یا خطرناک) ہو۔ مثال کے طور پر: · وہ کتا جو لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہو۔ · جس سے راستے میں گزرنے والوں کو خطرہ ہو۔ · جو بیماری پھیلانے کا باعث ہو (جیسے کاٹ کھانا یا بیماری زدہ ہونا)۔ اگر کتا موذی نہ ہو، بلکہ پالتو یا بے ضرر ہو تو اسے بلا وجہ مارنا جائز نہیں ہے۔ اسلام میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے، اور بلا وجہ ان کو تکلیف دینے یا مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ فتاوی شامی ہے: ""(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحًا) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها وفي المبتغي: يكره إحراق جراد وقمل وعقرب،(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية.