بیعِ صرف میں غلطی اور اس کی اصلاح کا شرعی طریقہ
سوال:- کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے آٹھ تولہ کھوٹ ملا سونا سنار کو دیا اور سنار نے اس کی قیمت 20 لاکھ روپے لگائی تو اس شخص نے سنار سے 20 لاکھ قیمت کے برابر سات تولہ خالص سونے کے بسکٹ لے لیے اور پیسوں پر قبضہ نہیں کیا اب اس سودے کا کیا حکم ہے ؟اور اس عقد کو صحیح کرنے کا کیا شرعی طریقہ ہے ؟رہنمائی فرما دیں
جواب:- صورۃ مسؤلہ میں کیا گیا معاملہ رقم پر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے سود (رباالفضل) کے زمرے میں آئے گا ۔کیونکہ سونے کو پیسے کے بدلے بیچنے کی صورت میں پیسوں پر قبضہ ضروری ہے جو صورۃ مسؤلہ میں نہیں پایا جارہا ہے۔۔ اس معاملے کو شرعی طور پر درست کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کریں: (1) پہلی بیع کو دونوں فریق منسوخ کریں۔ (2) صارف سات تولہ خالص سونا سنار کو واپس کر دے۔ (3)سنار کھوٹ والے آٹھ تولہ سونے کی مارکیٹ ویلیو قیمت صارف کو ادا کرے۔ (4) اب ایک نیا عقد کریں جس میں صارف سات تولہ خالص سونے کی قیمت ادا کر کے وہ سونا خرید لے
حوالہ جات:- فتاوی شامی میں ہے: (کتاب الصرف ، باب ثانی ج نمبر 3 ص نمبر 218) ''(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) -أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا(شرط التقابض) لحرمة النساء.'' فتاوی ہندیہ میں ہے: (کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص،258) ""الدراهم والدنانير لا تتعينان في عقود المعاوضات عندنا ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا أو مضروبا ولو بيع شيء من ذلك بجنسه ولم يعرفا وزنهما أو عرفا وزن أحدهما دون الآخر أو عرف أحد المتصارفين دون الآخر ثم تفرقا ثم وزنا وكانا سواء فالبيع فاسد. فأما إذا وزنا في المجلس قبل الافتراق وكانا سواء جاز البيع استحسانا كذا في الحاوي.