قرض کے باوجود قربانی اور عمرہ کا حکم
سوال:- کسی کے اوپر قرضہ ہو تو کیا وہ قرضے کی رقم ادا کیے بنا قربانی اور عمرہ ادا کر سکتا ہے اور صورت یہ ہو کہ جس نے قرضہ دیا ہو وہ اپنی رقم واپس مانگ رہا ہو پر قرضہ لینے والا یہی بولے کہ پیسے نہیں ہیں پر قربانی بھی کرلے اور عمرہ کرنے بھی چلا جائے ایسے شخص کی قربانی اور عمرہ قبول ہو جائے گا یا پہلے قرضے کی رقم واپس کر ناضروری ہے ہدایت فرمائیں؟
جواب:- واضح رہے کہ مقروض کا قرض ادا کرنے کی استطاعت کے باوجود ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعید آئی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقروض شخص کا جنازہ نہ پڑھاتے تھے حتی کہ قرض کی ادائیگی ہو جائے لہذا صورة مسؤلہ میں مقروض شخص کا قربانی و عمرہ ادا کرنا مکروہ ہو گا اور اس شخص پر لازم ہو گا کہ وہ نفلی حج و عمرہ کو چھوڑ کر پہلے قرض خواہوں کے قرضے کو ادا کرے اور حقوق العباد سے بری الذمہ ہو۔
حوالہ جات:- مطلب في قولهم: يقدم حق العبد على حق الشرع (قوله: لتقدم حق العبد أي على حق الشرع لا تحاوناً بحق الشرع، بل الحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا؛ ولأنه ما من شيء إلا والله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد